Friday, November 20, 2009
Saturday, April 18, 2009
Thursday, April 16, 2009
پیرِکامل
Monday, March 30, 2009
پاکستا ن کے سارے شہروں زند ہ رہو پائندہ رہو
میرے شہروں کو کس کی نظر لگ گئی
میری گلیوں کی رونق کہاں کھو گئی
ہم تو نکلے تھے ہاتھوں میں سورج لئےرات کیوں ہوگئی
رات کیوں ہوگئی طالبانِ سحر،آؤ سوچیں زرا
تم بھی سوچو زرا ،ہم بھی سو چیں زرا
آگہی سے پرے روشنی کے بنا
جتنے امکان ہیں سارے مر جائیں گے
جو بھی تخلیق ہے وہ بکھر جائے گی
زندگی اپنے چہرے سے ڈر جائے گی
طالبانِ سحر،آؤ سوچیں زرا
تم بھی سوچو زرا ،ہم بھی سو چیں زرا
Tuesday, March 24, 2009
سر کا استعمال
Friday, March 20, 2009
حکایتِ سعدی
Monday, March 16, 2009
انصاف الاسلام
آج ایک تاریخی دن ہے اور پچھلی رات ایک تاریخی رات تھی -میں نے اپنے آباؤاجداد سے سن رکھا ہے کہ جس رات پاکستان آزاد ہوا وہ رات برِصغیر کے مسلمانوں نے جاگ کر گزاری تھی اور پچھلی رات بہت سے پاکستانیوں نے جاگ کر گزاری اور گزشتہ رات اس قابل بھی تھی کہ اسے جاگ کر گزارا جائے اور بالاخر16 مارچ کا سورج اپنے ساتھہ ہمارے لئے امن اور امید لے کر آیا ہے اور میں پر امید ہو کہ عدلیہ کی بحالی پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کی طرف ایک اہم قدم ہوگا اور ایک دن آئے گا جب انصاف کا حصول ہر ایک پاکستانی کو حا صل ہو گا کیونکہ معاشرہ کفر پر تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن عدل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا
Friday, March 13, 2009
لانگ مارچ کے نام
عہدِجوانی میں ہم نے دیکھیں تھے کچھہ خواب سہانے
ان خوابوں میں ہم لکھتے تھے اکثر خوشیوں کے افسانے
ایک نئی دنیا کے فسانے ایک نئی دنیا کے ترانے
ایسی دنیا جس میں کوئی د کھہ نا جھیلیں بھوک نا جانیں
ایک طرف تھی جنتا ساری ایک طرف تھے چند گھرانے
ایک طرف تھے بھوکے ننگے ایک طرف قاروں کے خزانے
ایک طرف تھی مائیں بہنیں ایک طرف تحصیل اور تھانے
ایک طرف تھی تیسری دنیا ایک طرف بیداد پرانے
ایک طرف سچل اور باہو ایک طرف ملا اور مسلک
ایک طرف تھے ہیر اور رانجھا ایک طرف قاضی اور چوچک
ایک طرف امرت کے دھارے ایک طرف تھےدھارے بھس کے
ساری دنیا پھوچ رہے تھی بولو اب تم ساتھہ ہو کس کے
ہم یہ باور کر بیٹھے تھے سب ساتھی ہیں مزدوروں کے سب ہم حامی ہیں مجبوروں کے سب ساتھی ہیںمحکوموں کے
چیںنے جب ایک جست لگائی ہم بھی اس کے ساتھ چلے تھے
چوں نے جب آواز اٹھائی ہاتھ میں ڈالے ہاتھہ چلے تھے
مزہب کی تفریق نہیں تھی اور ہم سارے ایک ہوئے تھے
دنیا کی تاریخ گواہ ہے عدل بنا جمہور نہ ہو گا
عدل ہوا تو دیس ہماراکبھی بھی چکنا چور نہ ہو گا
عدل بنا کمزور ادارےعدل بنا کمزور اکائیاں
عدل بنا بے بس ہر شہری عدل بنا ہر سمت دھائیاں
دنیا کی تاریخ میں سوچوکب کوئی منصف قید ہوا ہے؟
آمر کی اپنی ہی اَنا سےعدل یہاں ناپید ہوا ہے
یوںلگتاہے ایک ہی طاقت ارظ ِخداپہ گھوم رہی ہے
یوںلگتاہے ہرایک قوت ہاتھہ اس کے چو م رہی ہے
اسکی بمباری کے بائث خون میں سب لبریز ہوئےہیں
مزہب میںشدت آئی ہے خودکش جنگجو تیز ہوئے ہیں
عدل کے ایوانوں میں سن لواصلی منصف پھر آئیں گے
روٹی کپڑا اور گھر اپناجنتا کو ہم دلوائیں گے
آٹا بجلی پانی ایندھن سب کو سستے دام ملے گا
بے روزگاروں کو ہر ممکن روزگار اور کام ملے گا ریاست ہو گی ماں کے جیسی ہر شہری سے پیار کرے گی
فوج لگے گی سب کو اچھی جب سرحد کے پاس رہے گی
جاؤجاؤ سب سے کہ دوقدم ہمارے رک نہیںسکتے
جاؤجاؤ سب سے کہ دواپنے سر اب جھک نہیں سکتے
رستا تھوڑا ہی باقی ہے دیکھودیکھو وہ منزل ہے
ظالم ڈر کے بھاگ رہاہے جیت ہمارا مستقبل ہے
جیت ہمارا مستقبل ہےجیت ہمارا مستقبل ہے
Sunday, March 1, 2009
اپنی سلگرہ کے نام
خوامخواہ
اسکا ما ما آنٹپکا خوامخواہ
چل رہے تھے اشتہار اچھے بھلے
ایک ڈرامہ آنٹپکا خوامخواہ
Saturday, February 28, 2009
اب کے سال پونم میں
ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھادیں گےشوخ تیرے قدموں پے
ہم نگاہوں سے تیر ی آرتھی اتاریں گے
اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے
تو کہ آج قاتل ہے پھر بھی راحتیں دل ہے
زہر کی ندی ہے تو پھر بھی قیمتی ہے تو
پست حوصلیں والے تیرا ساتھ کیا دیں گے
زندگی ادھر آجا ہم تجھے گزاریں گے
اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے
آہنی کلیجے کو زخم کی ضرورت ہے
انگلیوں سے جو ٹپکے اس لہو کی حاجت ہے
آپ زلف جاناں کے خم سنوارئیےصاحب
زندگی کی زلفوں کو آپ کیاسنواریں گے
اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے
ہم تو وقت ہیں پل ہے تیز گام گھڑیاں ہیں
بے قرار لمحے ہیں بے تکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا نہیں آئے
جو ملے گا رستے میں ہم اسے پکاریں گے
ا ب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے
Saturday, February 21, 2009
آوازِدوست
Wednesday, February 18, 2009
زند گی سےڈرتےہو؟
نذر محمد راشد1910ء میں ضلع گوجرانوالا کے قصبے وزیر آباد میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی- 1942ء میں ن م راشد کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلامجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کی پہلی کتاب بھی ہے
زنگی توتم بھی ہو،زندگی توہم بھی ہيں
آدمی سےڈرتےہو
آدمی توتم بھی ہو، آدمی توہم بھی ہيں
آدمی زباں بھی ہے، آدمی یياں بھی یے
اس سےتم نہيں ڈرتے
ان کہی سےڈرتےہو
جوابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی ساڈرتے ہو
پہلے بھی تو گزرے ہیں
دور نارسائی کے،بےریاخدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو ،ہیچ آرزو مندی
یہ شب زباں بندی ، ہے رہ خداوندی
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے
ہاتھ جاگ ا ٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ ا ٹھتے ہیں راہ کا نشا ں بن کر
نور کی زباں کر
ہاتھ بول ا ٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر
روشنی سےڈرتےہو؟
روشنی توتم بھی ہو،روشنی توہم بھی ہيں
روشنی سےڈرتےہو
شہر کی فصیلوں پر
دیو کا کو سایہ تھا پااک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر،خاک ہو گیا آخر
اڎدہام انسا ں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے
آدمی چھلک اٹھے
آدمی ہنسے دیکھو،شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو ؟
ن-م-راشد