Friday, November 20, 2009

میں نہیںمگر کچھہ بھی
سنگ دل رواجوں کے
آہنی حصاروں میں
عمر قید کی ملزم
صرف ایک لڑکی ہوں

Saturday, April 18, 2009

زندگی

خضر نے آبِ حیات کے چشمے پر سکندر سے کہا کہ ،موت مشکل ہے لیکن زند گی اس سے بھی زیادہ مشکل

Thursday, April 16, 2009

پیرِکامل

زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آجاتے ہیںجہاں سارے رشتے ختم ہوجاتے ہیں-وہاںصرف ہم ہوتے ہیں اور اللہ ہوتاہے-کوئی ماں باپ،کوئی بہن بھائی کوئی دوست نہیں ہوتا-پھر ہمیں پتا چلتاہے کہ ہمارے پاؤں کے نیچے نہ زمین ہے نہ ہمارے سر کے اوپر کوئی آسمان،بس صرف ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلامیں تھامے ہوئے ہے -پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم زمین پر پڑی مٹی کے ڈھیر میں ایک زرے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے-پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہونے یانہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے -صرف ہمارا کردار ختم ہو جاتا ہے -کائنات میں کو ئی تبدیلی نہیں آتی کسی چیزپر کوئی اثر نہیں پڑتا

عمیرا احمد کے پیرِکامل سے اقتباس
جعفرکے بلاگ پر آج کل خواتیں ڈائجسٹوں کا بڑا چرچا ہے - سب کی طرح میں نے بھی ان ڈائجسٹوں کا بغور مطالعہ کر رکھا ہے- ہر فلم اور ڈرامہ کی طرح خواتین ڈائجسٹوں کی کہانیو ں کا مرکذ ومحور عشقِ مجازی ہے لیکں بحرحال کچھ رائٹرز نے اپنےنئے موضوعات کی بدولت اپنے آپ کو منوایا ہے- عمیرا احمد کا شمار ایسی ہی رائٹرز میں ہو تا ہے - میں نے ان کی کہانیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے بلک کچھ کہانیوں سے محبت کی ہےاور ٫رپیرِکامل انھی میں سے ایک ہے۔

Monday, March 30, 2009

پاکستا ن کے سارے شہروں زند ہ رہو پائندہ رہو

کچھ چیزیں اتنی تکیف دہ ہو تیں ہیں کہ ان کے بارے میں بات کرنے کا دل ہی نہیں چاہتا-جیسے جب آج جیو ٹیلی ویژن پر اس ماں کی آہ وبکا سنی جسکا جواں سال بیٹامناواں پولیس سینٹر حملے میں شہید ہوگیااور جو راجہ ریاض سے ہسپتال میں کھڑے ہو کر یہی سوال مسلسل دھراتی تھی کہ "اب میرا بیٹا کدھر سے آئے گا اور کون لائے گا"اس ماں کو کون سمجھائے کہ مسافر راہئ ملکِ عد م کب لوٹ کر آئے ہیں-ایک نظم جس کےشاعر شائید امجد اسلام امجد ہیں
میرے شہروں کو کس کی نظر لگ گئی
میری گلیوں کی رونق کہاں کھو گئی
ہم تو نکلے تھے ہاتھوں میں سورج لئےرات کیوں ہوگئی
رات کیوں ہوگئی طالبانِ سحر،آؤ سوچیں زرا
تم بھی سوچو زرا ،ہم بھی سو چیں زرا
آگہی سے پرے روشنی کے بنا
جتنے امکان ہیں سارے مر جائیں گے
جو بھی تخلیق ہے وہ بکھر جائے گی
زندگی اپنے چہرے سے ڈر جائے گی
طالبانِ سحر،آؤ سوچیں زرا
تم بھی سوچو زرا ،ہم بھی سو چیں زرا

Tuesday, March 24, 2009

سر کا استعمال

جلال الدین سلجوقی نے عمر خیال کو پیغام بھیجا کہ میرے پاؤں میں موچ آگئی ہے اورسلطنت کے کام رکے ہوئے ہیں اس لئے کوئی اچھاسا طبیب بھیجواس نے جواب دیا
ظل ِالٰہی !امورِسلطنت کے لئے پاؤں نہیں سر استعمال فرمائیے

Friday, March 20, 2009

حکایتِ سعدی

ایک بادشاہ نے منت مانی کہ اگر اس کی مشکل حل ہو گئی تو شہر کے زاہدوں کواتنے ہزاردرِہم دوںگا- جب مشکل حل ہو گئی تو اس نے اپنے خاص ملازم کو وہ رقم دی کہ زاہدوں میںتقسیم کر دو-غلام سمجھدارآدمی تھا-سارادن پھرپھرا کرشام کو ساری رقم بادشاہ کے آگے رکھہ دی اور کہا
"شہرمیں کوئی زاہد نہیں ملا'جویہ رقم لیتا"
بادشاہ نے کہا- شہر میں تو ہزاروںزاہد ہیں
غلام نے دست بستہ عرض کیا-" جو زاہد ہے وہ لیتا نہیں'جولیتا ہے وہ زاہد نہیں

Monday, March 16, 2009

انصاف الاسلام

ہرطویل اور تاریک رات کے بعد بالاخر ایک صبح ضرور آتی ہے ہر جائز اور سچی جدوجہد بالاخر اپنے منطقی انجام کو ضرورپہنچتی ہے اور بقول اقبال اگر ذوق ِیقیں ہو تو زنجیریں بھی کٹ جاتی ہے
آج ایک تاریخی دن ہے اور پچھلی رات ایک تاریخی رات تھی -میں نے اپنے آباؤاجداد سے سن رکھا ہے کہ جس رات پاکستان آزاد ہوا وہ رات برِصغیر کے مسلمانوں نے جاگ کر گزاری تھی اور پچھلی رات بہت سے پاکستانیوں نے جاگ کر گزاری اور گزشتہ رات اس قابل بھی تھی کہ اسے جاگ کر گزارا جائے اور بالاخر16 مارچ کا سورج اپنے ساتھہ ہمارے لئے امن اور امید لے کر آیا ہے اور میں پر امید ہو کہ عدلیہ کی بحالی پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کی طرف ایک اہم قدم ہوگا اور ایک دن آئے گا جب انصاف کا حصول ہر ایک پاکستانی کو حا صل ہو گا کیونکہ معاشرہ کفر پر تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن عدل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا

Friday, March 13, 2009

لانگ مارچ کے نام

اعتزاز احسن کی نظم کل آج اور کل- ویسے تو یہ ایک کافی طویل نظم ہے میں اسکے کچھہ حصےجو لال بینڈ نے گائے ہیں وہی آپ کے ساتھ شیئر کر رہی ہوں

عہدِجوانی میں ہم نے دیکھیں تھے کچھہ خواب سہانے
ان خوابوں میں ہم لکھتے تھے اکثر خوشیوں کے افسانے
ایک نئی دنیا کے فسانے ایک نئی دنیا کے ترانے
ایسی دنیا جس میں کوئی د کھہ نا جھیلیں بھوک نا جانیں
ایک طرف تھی جنتا ساری ایک طرف تھے چند گھرانے
ایک طرف تھے بھوکے ننگے ایک طرف قاروں کے خزانے
ایک طرف تھی مائیں بہنیں ایک طرف تحصیل اور تھانے
ایک طرف تھی تیسری دنیا ایک طرف بیداد پرانے
ایک طرف سچل اور باہو ایک طرف ملا اور مسلک
ایک طرف تھے ہیر اور رانجھا ایک طرف قاضی اور چوچک
ایک طرف امرت کے دھارے ایک طرف تھےدھارے بھس کے
ساری دنیا پھوچ رہے تھی بولو اب تم ساتھہ ہو کس کے
ہم یہ باور کر بیٹھے تھے سب ساتھی ہیں مزدوروں کے سب ہم حامی ہیں مجبوروں کے سب ساتھی ہیںمحکوموں کے
چیںنے جب ایک جست لگائی ہم بھی اس کے ساتھ چلے تھے
چوں نے جب آواز اٹھائی ہاتھ میں ڈالے ہاتھہ چلے تھے
مزہب کی تفریق نہیں تھی اور ہم سارے ایک ہوئے تھے
دنیا کی تاریخ گواہ ہے عدل بنا جمہور نہ ہو گا
عدل ہوا تو دیس ہماراکبھی بھی چکنا چور نہ ہو گا
عدل بنا کمزور ادارےعدل بنا کمزور اکائیاں
عدل بنا بے بس ہر شہری عدل بنا ہر سمت دھائیاں
دنیا کی تاریخ میں سوچوکب کوئی منصف قید ہوا ہے؟
آمر کی اپنی ہی اَنا سےعدل یہاں ناپید ہوا ہے
یوںلگتاہے ایک ہی طاقت ارظ ِخداپہ گھوم رہی ہے
یوںلگتاہے ہرایک قوت ہاتھہ اس کے چو م رہی ہے
اسکی بمباری کے بائث خون میں سب لبریز ہوئےہیں
مزہب میںشدت آئی ہے خودکش جنگجو تیز ہوئے ہیں
عدل کے ایوانوں میں سن لواصلی منصف پھر آئیں گے
روٹی کپڑا اور گھر اپناجنتا کو ہم دلوائیں گے
آٹا بجلی پانی ایندھن سب کو سستے دام ملے گا
بے روزگاروں کو ہر ممکن روزگار اور کام ملے گا ریاست ہو گی ماں کے جیسی ہر شہری سے پیار کرے گی
فوج لگے گی سب کو اچھی جب سرحد کے پاس رہے گی
جاؤجاؤ سب سے کہ دوقدم ہمارے رک نہیںسکتے
جاؤجاؤ سب سے کہ دواپنے سر اب جھک نہیں سکتے
رستا تھوڑا ہی باقی ہے دیکھودیکھو وہ منزل ہے
ظالم ڈر کے بھاگ رہاہے جیت ہمارا مستقبل ہے
جیت ہمارا مستقبل ہےجیت ہمارا مستقبل ہے



Sunday, March 1, 2009

اپنی سلگرہ کے نام

آج میری سلگرہ ہے اور میں اداس بلکل نہیں ہوں -اعتبا ر ساجد کی یہ غزل مجھے پسند ہے
میں تکیے پر ستارے بورہاہوں
جنم د ن ہےاکیلارورہاہوں
کسی نےجھانک کردیکھانہ دل میں
کہ اندرسے میں کیساہورہاہوں
جودل پرداغ ہے پچھلی رتوں کے
انہیں اب آنسؤں سےدھوہورہاہوں
سبھی پرچھائیاں ہیں ساتھ لیکن
بھری محفل میں تنہاہورہاہوں
مجھےان نسبتوںسےکو ن سمجھا؟
میں رشتےمیں کسی کاجورہاہوں
میں چونک اٹھتاہوں اکثربیٹھےبیٹھے
کہ جیسے جاگتے میں سورہاہوں
کسے پانے کی خواہش ہے کہ ساجد
میں رفتہ رفتہ خود کوکھورہاہوں

خوامخواہ

ہیر نکلی جس گھڑی رانجھے کے سنگ
اسکا ما ما آنٹپکا خوامخواہ
چل رہے تھے اشتہار اچھے بھلے
ایک ڈرامہ آنٹپکا خوامخواہ

Saturday, February 28, 2009

اب کے سال پونم میں

یہ غزل پچھلے دنوں میں نے اتنی سنی کہ یاد ہو گئی- جہاں تک میر ی معلو مات ہے تو اسکے مطابق اسے نا صر کاظمی نے لکھا ہے اور بہت سے گلو کاروں نے اسے گایا ہے لیکن مجھے یہ مہدی حسن کی آواز میں پسند ہےاگر آپ سنا چاہیں تو یہ رہا لنک

اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے
ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھادیں گےشوخ تیرے قدموں پے
ہم نگاہوں سے تیر ی آرتھی اتاریں گے
اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے
تو کہ آج قاتل ہے پھر بھی راحتیں دل ہے
زہر کی ندی ہے تو پھر بھی قیمتی ہے تو
پست حوصلیں والے تیرا ساتھ کیا دیں گے
زندگی ادھر آجا ہم تجھے گزاریں گے
اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے
آہنی کلیجے کو زخم کی ضرورت ہے
انگلیوں سے جو ٹپکے اس لہو کی حاجت ہے
آپ زلف جاناں کے خم سنوارئیےصاحب
زندگی کی زلفوں کو آپ کیاسنواریں گے
اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے
ہم تو وقت ہیں پل ہے تیز گام گھڑیاں ہیں
بے قرار لمحے ہیں بے تکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا نہیں آئے
جو ملے گا رستے میں ہم اسے پکاریں گے
ا ب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے

Saturday, February 21, 2009

آوازِدوست

آوازِدوست ان چند کتابوں میں سے ایک ہے جسے میں نے کئی بار پڑھا اور ہر بار پہلے سے زیادہ لطف محسوس کیا –مختار مسعودکہتےہیں
میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین گمشدہ صدیوں کا ماتم کررہاتھا- مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میںراز کی بات کہہ دی، جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں،جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے،ملک کے بجائے مفاد اورملت کے بجائے مصلحت عزیزہو،اورجب مسلمانوں کو موت سے خوف آئےاورزندگی سے محبت ہو جائے تو صدیاںیوں ہی گم ہو جاتی ہیں۔

Wednesday, February 18, 2009

زند گی سےڈرتےہو؟


نذر محمد راشد1910ء میں ضلع گوجرانوالا کے قصبے وزیر آباد میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی- 1942ء میں ن م راشد کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلامجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کی پہلی کتاب بھی ہے
زند گی سےڈرتےہو؟
زنگی توتم بھی ہو،زندگی توہم بھی ہيں
آدمی سےڈرتےہو
آدمی توتم بھی ہو، آدمی توہم بھی ہيں
آدمی زباں بھی ہے، آدمی یياں بھی یے
اس سےتم نہيں ڈرتے
ان کہی سےڈرتےہو
جوابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی ساڈرتے ہو
پہلے بھی تو گزرے ہیں
دور نارسائی کے،بےریاخدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو ،ہیچ آرزو مندی
یہ شب زباں بندی ، ہے رہ خداوندی
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے
ہاتھ جاگ ا ٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ ا ٹھتے ہیں راہ کا نشا ں بن کر
نور کی زباں کر
ہاتھ بول ا ٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر
روشنی سےڈرتےہو؟
روشنی توتم بھی ہو،روشنی توہم بھی ہيں
روشنی سےڈرتےہو
شہر کی فصیلوں پر
دیو کا کو سایہ تھا پااک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر،خاک ہو گیا آخر
اڎدہام انسا ں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے
آدمی چھلک اٹھے
آدمی ہنسے دیکھو،شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو ؟
ن-م-راشد

Wednesday, January 14, 2009

Quote

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہۓ
استاد سبق ديتا ہۓاور پھر امتحان ليتا ہۓاور زندگی امتحان ليتی ہۓ اور پھر سبق ديتی ہۓ