Saturday, February 28, 2009

اب کے سال پونم میں

یہ غزل پچھلے دنوں میں نے اتنی سنی کہ یاد ہو گئی- جہاں تک میر ی معلو مات ہے تو اسکے مطابق اسے نا صر کاظمی نے لکھا ہے اور بہت سے گلو کاروں نے اسے گایا ہے لیکن مجھے یہ مہدی حسن کی آواز میں پسند ہےاگر آپ سنا چاہیں تو یہ رہا لنک

اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے
ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھادیں گےشوخ تیرے قدموں پے
ہم نگاہوں سے تیر ی آرتھی اتاریں گے
اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے
تو کہ آج قاتل ہے پھر بھی راحتیں دل ہے
زہر کی ندی ہے تو پھر بھی قیمتی ہے تو
پست حوصلیں والے تیرا ساتھ کیا دیں گے
زندگی ادھر آجا ہم تجھے گزاریں گے
اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے
آہنی کلیجے کو زخم کی ضرورت ہے
انگلیوں سے جو ٹپکے اس لہو کی حاجت ہے
آپ زلف جاناں کے خم سنوارئیےصاحب
زندگی کی زلفوں کو آپ کیاسنواریں گے
اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے
ہم تو وقت ہیں پل ہے تیز گام گھڑیاں ہیں
بے قرار لمحے ہیں بے تکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا نہیں آئے
جو ملے گا رستے میں ہم اسے پکاریں گے
ا ب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے

Saturday, February 21, 2009

آوازِدوست

آوازِدوست ان چند کتابوں میں سے ایک ہے جسے میں نے کئی بار پڑھا اور ہر بار پہلے سے زیادہ لطف محسوس کیا –مختار مسعودکہتےہیں
میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین گمشدہ صدیوں کا ماتم کررہاتھا- مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میںراز کی بات کہہ دی، جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں،جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے،ملک کے بجائے مفاد اورملت کے بجائے مصلحت عزیزہو،اورجب مسلمانوں کو موت سے خوف آئےاورزندگی سے محبت ہو جائے تو صدیاںیوں ہی گم ہو جاتی ہیں۔

Wednesday, February 18, 2009

زند گی سےڈرتےہو؟


نذر محمد راشد1910ء میں ضلع گوجرانوالا کے قصبے وزیر آباد میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی- 1942ء میں ن م راشد کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلامجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کی پہلی کتاب بھی ہے
زند گی سےڈرتےہو؟
زنگی توتم بھی ہو،زندگی توہم بھی ہيں
آدمی سےڈرتےہو
آدمی توتم بھی ہو، آدمی توہم بھی ہيں
آدمی زباں بھی ہے، آدمی یياں بھی یے
اس سےتم نہيں ڈرتے
ان کہی سےڈرتےہو
جوابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی ساڈرتے ہو
پہلے بھی تو گزرے ہیں
دور نارسائی کے،بےریاخدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو ،ہیچ آرزو مندی
یہ شب زباں بندی ، ہے رہ خداوندی
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے
ہاتھ جاگ ا ٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ ا ٹھتے ہیں راہ کا نشا ں بن کر
نور کی زباں کر
ہاتھ بول ا ٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر
روشنی سےڈرتےہو؟
روشنی توتم بھی ہو،روشنی توہم بھی ہيں
روشنی سےڈرتےہو
شہر کی فصیلوں پر
دیو کا کو سایہ تھا پااک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر،خاک ہو گیا آخر
اڎدہام انسا ں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے
آدمی چھلک اٹھے
آدمی ہنسے دیکھو،شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو ؟
ن-م-راشد